History of Shirazians شیرازیوں کی تاریخ

History of Shirazians شیرازیوں کی تاریخ

ہم شیرازی کیوں ہیں؟ شیراز سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ ہم نے آنکھ پاکستان میں کھولی پھر بھی ہم شیرازی کیوں ہیں؟

یہ سوال اکثر و بیشتر اپنے نام کے ساتھ شیرازی لگانےوالوں کو پریشان کردیتا ہے

اس بےچینی کے حل کے لئے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ان تمام سوالات کے جوابات لئے شیرازی برادری کے کسی بزرگ کی خدمات حاصل کی جائیں کہ جن کو ہمارے شیرازی ہونے کی مکمل معلومات ہوں، اس حوالے سے جو نام ہمارے ذہن میں آیاوہ جناب حافظ الہی بخش کے سب سے چھوٹے صاحبزادے جناب حاجی محمد رمضان صاحب کا آیا۔ اس لئے ہم نے ان سے شیرازی ہونے کے حوالے سے معلومات حاصل کیں، جو آپ تمام شیرازی افراد کی خدمت میں پیش ہیں۔

ہماری برادری کے لوگ شیرازی نام عرصئہ دراز سے اپنے ساتھ لکھتے اور لکھواتے آئے ہیں، یہ نام تیس چالیس سال پرانا نہیں ہماری معلومات کے مطابق ملتان میں نظام الدین شیرازی مرحوم جو کہ کراچی میں راشد ملتانی اور اعجاز ملتانی کے والد تھےوہ اپنے نام کے ساتھ شیرازی لکھواتے تھےاور انکے والد یعنی راشد ملتانی کے دادا جن کا نام گل حسن شیرازی تھاجو 1968میں انتقال فرماگئے تھے ان کی قبر پربھی انکا نام یہی لکھا ہوا ہےجبکہ انکی عمر 82برس تھی تو یہ شیرازی نام ظاہر ہے کہ انکے والدین نے بھی لکھا ہوگا۔ بندوق والی گلی جو کہ دہلی میں واقع ہےجہاں ہماری شیرازی برادری کے بزرگوں نے رہائش اختیار کی اور اس محلے میں حیدرآباد سندھ کے ممتاز صنعت کار حاجی محمد یامین شیرازی کی پیدائش ہوئی جن کی دکان سرے گھاٹ پر وی آئی چپل کے نام سے ہے۔ حاجی محمد یامین شیرازی کے والدین بھی اسی شہر شیراز سے نسبت رکھتے تھے۔

شیرازی نام ہماری برادری کے بزرگ اپنے نام کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں اب یہ نام ہماری پہچان بن گیا ہے۔

تاریخی پس منظر کی روشنی میں

نادرشاہ جو ایران کا بادشاہ تھا اور تقریبا ساڑھے 4 سو سال قبل اسکی بادشاہت تھی اور وہ مختلف ملکوں کو فتح کرتا ہوا ایران تک آیا، شیراز جو ایران کا ایک شہر ہے وہاں بھی اس نے قیام کیا ہمارے آباواجداد اسکی فوج کے ساتھ ہی تھے جو کہ فوجیوں کے جوتے بناتے، بندوق اور گولیوں کے کور، گھوڑوں کی زین، رقابیں، پانی کی مشکیں اور پانی بھرنے کیلئے چمڑے کے ڈول بنانے اور درست کرنے کا کام انجام دیتے تھے بالکل ویسےہی جیسے آجکل کے دور میں فوجیوں کےساتھ “انجینیئرنگ کور ” ہوتی ہے۔ نادر شاہ نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور شیراز سے آگے بڑھ گیا مگر ہمارے آباو اجداد نے وہیں قیام کیا۔ 1857 کی جنگ چھڑی تو انگریزوں کا وائے سرائے جسکا نام مڈکلا تھا اسکو مسلمانوں پر زیادتی کی وجہ سے شیرازیوں نے ماردیا تھا اس پر انگریزوں نے ہر چمڑے اور جوتوں کا کام کرنے والوں کو چن چن کر مارنا شروع کردیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ دہلی آگئے اور راجداڑوں میں مل گئے اور دہلی میں آج بھی موجود بندوق والی گلی میں آکر بس گئے جہاں بندوقوں کے کور الغرض ہر وہ چیز جو چمڑے سے تیار کی جاتی ہے وہ تیار کرتے تھے، شیرازیوں کے دھوکے میں کئی لوہار بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھےکیونکہ جس کے ہاتھوں میں انگریز گٹے یعنی لوہے کے اوزاروں کے نشان دیکھ لیا کرتے تھے اسکو مار دیا کرتے تھے اسی ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباو اجداد نے بھارت کے مختلف شہروں میں ہجرت کی، کوئی جے پور چلا گیا، کوئ جودھپور، کوئی اجمیر، کوئی بیکانیر اور کوئی کسی اور شہر، الغرض شیرازی برادری کے لوگ ہندوستان کے مختلف شہروں میں پھیل گئے اور ابھی بھی وہاں رہنے والوں کی نسلیں وہاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر محمد دین کے والد بھی ابھی تھوڑے عرصہ پہلے تک بھی بندوق والی گلی میں کام کیا کرتے تھے اور اپنے کام کے بہترین کاریگر تھے ان کی ہماری برادری میں کوئی مثال نہیں تھی۔

ایک طویل عرصہ وہاں رہنے کے بعد برادری کے لوگوں کی اکثریت نے پاکستان میں ہجرت کرلی اور مختلف شہروں جن میں لاہور، پشاور، حیدرآباد اور کراچی شامل ہیں میں سکونت اختیار کی۔

اس طرح ہمارے آباواجداد اپنے نام کے ساتھ شیراز شہر سے نسبت رکھتے ہوئے اور اولیائے کرام کی نسبت سے جن کے نام میں شیرازی نام استعمال ہوتا ہے اپنے نام کے ساتھ لکھوانا پسند کیا اور آج بھی ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔

ہم نے یہ چھوٹی سی تحریر آپ کی خدمت میں معلومات کے طور پر پیش کی ہے، مزید تاریخ کے اوراق ہماری نسبت بیان کرتے ہیں اب جسے شک ہو وہ تاریخ پڑھ لیں ہمارا فرض تھا ہم نے پورا کیا۔

گویا کہ

ہم شیرازی یو ہیں

بقول شاعر کہ

ست رنگی چھوڑ یک رنگی ہو جا

سراسر سنگ ہو سراسر موم ہوجا

نوٹ: یہ تحریر ایک پرانے اخبار، جو کسی وقت سندھ شیرازی ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے نکالا جاتاتھا اس میں لی گئی ہے، جسے محترمہ رخسانہ شیرازی نے تحریر کیا تھا۔